ایک گاؤں میں ایک نوجوان لڑکا تھا جس کا نام احمد تھا۔ احمد بہت محنتی اور ایماندار تھا، لیکن اس کی زندگی میں ایک بڑی لعنت تھی جس کا نام “لعنت” تھا۔ یہ لعنت اس کے گاؤں میں پھیلی ہوئی تھی اور لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہی تھی۔
لعنت کی شروعات
یہ لعنت دراصل ایک بدقسمتی کی کہانی سے شروع ہوئی۔ ایک دن، گاؤں کے ایک بزرگ نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے جہیز کی تیاری کی۔ لیکن جب لڑکے کے والدین نے جہیز کی بھاری رقم مانگی، تو بزرگ نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد لڑکے کے والدین نے بد دعا دی کہ “جو بھی اس گاؤں میں جہیز کے بغیر شادی کرے گا، اس پر لعنت ہو گی۔”
لعنت کا اثر
اس بد دعا کے بعد گاؤں میں ہر شادی میں جہیز کی مانگ بڑھ گئی۔ لوگ جہیز دینے کے لیے اپنی جمع پونجی خرچ کرنے لگے، اور جو لوگ جہیز نہیں دے پاتے تھے، ان کی بیٹیوں کی شادیاں نہیں ہوتیں۔ اس لعنت نے گاؤں کے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا۔ دوستیاں ٹوٹ گئیں، اور محبت کی جگہ نفرت نے لے لی۔
احمد کا عزم
احمد نے اس لعنت کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے گاؤں کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جہیز کی لعنت نے ان کی زندگیوں کو برباد کر دیا ہے۔ اس نے کہا، “ہمیں اس لعنت کو ختم کرنا ہوگا اور اپنی بیٹیوں کو عزت دینا ہوگی۔”
تبدیلی کا آغاز
احمد کی کوششیں آہستہ آہستہ رنگ لانے لگیں۔ کچھ لوگ اس کی باتوں سے متاثر ہوئے اور جہیز کے بغیر اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنے لگے۔ گاؤں میں ایک نئی ہوا چلنے لگی۔ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے لگے اور محبت و بھائی چارے کی مثالیں قائم ہونے لگیں۔
لعنت کا خاتمہ
آخرکار، احمد کی محنت رنگ لائی اور گاؤں میں جہیز کی لعنت ختم ہو گئی۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوشی خوشی زندگی گزارنے لگے۔ احمد نے ثابت کر دیا کہ اگر ہم سب مل کر کسی لعنت کا مقابلہ کریں تو ہم اسے ختم کر سکتے ہیں۔
سبق
اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ ہمیں اپنی روایات اور رسم و رواج پر غور کرنا چاہیے۔ اگر وہ ہمارے معاشرتی نظام میں لعنت بن جائیں تو ہمیں ان کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اور مثبت تبدیلی کی کوشش کرنی چاہیے۔