Home Blog Page 2

دھوبی کا گدھا

0
دھوبی کا گدھا

ہارون ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جو کراچی (پاکستان کا سب سے بڑاشہر اور بندر گاہ)کے بیرونی علاقے کے ایک گاؤ ں میں رہتا تھا۔ ہارون اپنے گاؤ ں کے چھوٹے سے پرائمری سکول میں پڑھنے  جایا کرتا تھا جو کہ اس کے گھر سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ اسکی جماعت کا کمرہ بہت کشادہ تھاجس میں  پٹ سن  کی بنی ہوئی بہت لمبی لمبی چٹائیاں فرش پر لمبی اور سیدھی قطاروں میں بچھی ہوتی تھیں۔ بچےّ ان چٹا ئیوں پر  تختہ سیاہ اور استاد کیطرف منہ کرکے بیٹھتے تھے۔ بچوّ ں کے لئے کوئی میز اور کرسیاں نہیں تھیں۔صرف ایک ڈیسک کمرے میں سب کے سامنے  کی طرف تھا جو کہ صرف  استاد کے استعمال میں تھا۔وہاں ایک طرف ایک الماری بھی تھی جس میں بچوّ ں کی کاپیاں اور کتابیں وغیرہ رکھی ہوئی  ہوتی تھیں۔ ان چند چیزوں کے علاوہ اس کمرے میں کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ ان دنوں میں گاؤ ں کے چھوٹے سکولوں میں عام طور پر یہی طریقہ ہوتا تھا۔   

ہارون ایک اچھا لڑکا تھا جو کہ اپنے بڑے بزرگوں، اپنے والدین اور اپنے استاد کی عزّ ت کیا کرتا تھا۔ وہ روزانہ  بہت صبح سویرے اٹھتا   تاکہ وقت پر تیاّ ر ہو کر ناشتہ کرے، اور پھر وہ گھر سے نکل کر کھیتوں کے درمیان سے گزرتا ہوا  لمبا سفر طے کرکے سکول میں وقت سے پہلے پہنچ جائے۔وہ بہت محنت کرتا اور ہمیشہ اپنا سکول کا کام ختم کرتا۔ وہ ہمیشہ اپنے والدین کی اس نصیحت پر عمل کرتا کہ آج کا کام کبھی کل پر مت چھوڑو۔

سکول میں تفریح کے وقت ہارون اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں کبڈّ ی کھیلا کرتا تھا۔ یہ کھیل پاکستان کے دیہاتی علاقوں کے نو جوانوں کے درمیان بہت مقبول ہے، اور ہارون کو بھی یہ کھیل کھیلنا بہت پسند تھا۔

ہارون کے ہمسائے میں ایک دھوبی بھی  رہا کرتا تھاجس کا نام تاجوُ تھا ۔ تاجوُ کے پاس ایک مر یل سا گدھا تھا جس پر سوار ہو کر وہ ہر ہفتے قریب کے ایک قصبےمیں جاتا اور وہاں کے لوگوں سے میلے کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کرکے لاتا۔ پھروہ گدھے پر سوار ہو کر کپڑوں کے ساتھ دریا پر جاتا اور وہاں پر وہ کپڑے دھو کر لاتا۔

تاجوُ کی ایک بری عادت تھی کہ جب وہ گدھے پر سوار ہوتا تو وہ بچارے گدھےکی ٹانگوں پر  زور  زور سے چھڑ ی مارتا جاتا تھا، تب وہ گدھا ایک بھیانک سی آواز  نکالتا تھا۔ ’ ڈھیں  ہوُ ں ،  ڈھیں ہوُ ں ‘  اور ساتھ ہی  تاجوُ  اپنا اور  بھاری  گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے ہوتا تھا۔پھر شام کو وہ گدھے پر سوار دھلے ہوئے کپڑوں  کی گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے اس کی ٹانگوں پر چھڑی مارتا ہوا واپس  آتا  تھا۔ جب دھوبی پاس سے گزرتا تو  ہارون اکثر گدھے کی یہ بھیانک اور غمزدہ آواز سنتا، اور گدھے کے بارے میں پریشانی کی وجہ سے وہ بچہّ رات کو سو نہ سکتا۔

تاجوُ کی ایک بری عادت تھی کہ جب وہ گدھے پر سوار ہوتا تو وہ بچارے گدھےکی ٹانگوں پر  زور  زور سے چھڑ ی مارتا جاتا تھا، تب وہ گدھا ایک بھیانک سی آواز  نکالتا تھا۔ ’ ڈھیں  ہوُ ں ،  ڈھیں ہوُ ں ‘  اور ساتھ ہی  تاجوُ  اپنا اور  بھاری  گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے ہوتا تھا۔پھر شام کو وہ گدھے پر سوار دھلے ہوئے کپڑوں  کی گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے اس کی ٹانگوں پر چھڑی مارتا ہوا واپس  آتا  تھا۔ جب دھوبی پاس سے گزرتا تو  ہارون اکثر گدھے کی یہ بھیانک اور غمزدہ آواز سنتا، اور گدھے کے بارے میں پریشانی کی وجہ سے وہ بچہّ رات کو سو نہ سکتا۔

دوسرے دن صبح کے وقت بھی سکول جاتے  ہوئے ہارون دھوبی کو  گدھے پر دھلے ہوئےکپڑوں کےساتھ سوار شہر کی طرف جاتے ہوئے  دیکھتا، جو ہمیشہ کی طرح گدھے کو لمبی چھڑی کے ساتھ   پیٹتا جاتا تھا۔بچارہ چھوٹا سا لڑکا اکثر بہت غور  و فکر سے  دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہتا کہ کس طرح اس گدھے کو   تاجوُ  کی مار  پیٹ سے بچایا جائے۔  مگر کبھی بھی  کوئی منصوبہ اس کی سمجھ میں نہیں  آیا۔

یہ سب کچھ عرصے تک جاری رہا، گدھا کمزور اور بوڑھا ہو گیا۔ تاجوُ  خود  بھی اپنے گدھے کی طرح بوڑھا اورکمزور  ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دھوبی شہر سے اتنے  زیادہ کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کرکے دھونے کے لئے نہیں لا سکتا تھا۔ اس وجہ سےوہ اب زیادہ  غریب  ہو گیا تھا، اور اس کو اپنے گدھے کی دیکھ بھال پہلے سے زیادہ  مشکل لگتی تھی۔ اب تاجوُ  نے گدھے کو  تازہ سبز  گھاس  کی بجائے بچا کھچا کھانا دینا شروع کر دیا۔ لیکن اس کی گدھے کو  پیٹنے کی عادت نہیں بدلی۔

پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ہارون نے اپنے پرائمری سکول کے فائنل امتحان کو اپنی جماعت میں سب سے زیادہ نمبرحاصل کرکےپاس کر لیا۔ ہیڈ ماسٹر نے اس کے سرٹیفِکیٹ کے ساتھ  اسے ایک خاص انعام بھی دیا، ہارون گاوُ ں بھر میں بہت مشہور ہو

گیا ۔اس کے والدین انتہائی خوش ہوئےاور اپنے بیٹے کی کامیابی پر ناز کرنے لگے۔ اس کی محنت اور کامیابی کی خوشی مناتے ہوئے ہارون کے والدین نے اس سےوعدہ کیا ،  کہ وہ اسے اس کی مرضی کی جو  چیز بھی وہ پسند کرے گا ، اسے وہی  تحفے میں خرید کر دیں گے۔

اسی رات کو جب وہ چھوٹا سا لڑکا اپنے کمرے میں سونے کے لئے گیا، اس کے کمرے کی کھڑکی کھلی تھی اور اسے اس بچارے گدھے کی غمزدہ آواز تھوڑے فاصلے سے سنائی دے رہی تھی ’ ڈھیں  ہوں  ،  ڈھیں  ہوں ‘  ۔ ہارون نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے والد سے تاجوُ کاگدھا خریدنے کے لئے کہے گا۔ اسے یقین تھا کہ اس کے اباّ جان اس سے تعاون کریں گے مگر اسے ڈر تھا کہ بوڑھا  تاجوُ شاید نہ مانے۔

دوسرے دن جب ہارون نے درخواست کی کہ کیا وہ  تاجوُ کا گدھا خرید سکتا ہے؟ تو اس کے والد اس کی غیر متوقع درخواست پر بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے کہا    ’بیٹے ! تاجوُ کے گدھے میں کیا خاص بات ہے؟  تم کوئی دوسرا  جانور بھی پال سکتے ہو‘۔  لیکن ہارون نے کہا ’ نہیں اباّ جان!  میں تاجو کا گدھا ہی حاصل کرنا بہتر سمجھتا ہوں ‘ ۔ تب اس چھوٹے سےلڑکے نے اپنے والد کے سامنے  تمام کہانی بیان کی کہ کس طرح  تاجوُ   اپنے گدھے کو  ایک لمبی چھڑی سے مارتا ہے اور کس طرح وہ اپنے گدھے سے کپڑوں کی بھاری  گٹھڑیاں اٹھواتا ہے اور اسےکھانے کے لئے تازہ گھاس کی بجائے بچا کھچا کھانا اسکے آگے ڈال دیتا ہے۔ ہارون نےاپنے والد کو وضاحت کرکے بتایا کہ کس طرح وہ  عرصے سے بچارے گدھے  کو اس سخت ظلم سے  بچانے کی خواہش رکھے ہوئے تھا۔ اس کی داستان سننے کے بعد اس کے والد اپنے بیٹے کے لئے اس بوڑھے گدھے کو خریدنے  پر راضی ہو گئے۔

اس طرح دوسرے روز صبح ہارون اور اس کے والد تاجوُ سے ملنے گئے اور انہوں نے دھوبی سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا گدھا خرید سکتے ہیں؟ تاجوُ  کو اس درخواست پر بہت تعجبّ  ہوا ، تب وہ سوچنے لگا کہ اس کا گدھا  کتنا بوڑھا اور کمزور ہو  چکا ہے، اور اسےکھلانا پلانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا اب کافی مشکل ہو گیا تھا۔ پھر تاجوُ  اچھی قیمت حاصل کرنے کے لئے کچھ دیر  بحث کرنے کے بعد اپنے بوڑھے گدھے کو باپ بیٹے کے ہاتھ  بیچنے  پر راضی ہو گیا۔

ہارون اور اباّ جان گدھے کو اپنے ساتھ ہی گھر لے آئے اور اسے اپنے گھر کے پیچھے بہت بڑے صحن میں آزاد چھوڑ دیا۔انہوں نے بوڑھے گدھے کو

کھانے کیلئے تازہ گھاس بھی دی۔اور  انہوں نے وعدہ کیا  کہ آیئندہ  اسے کبھی بھی کپڑوں کی بھاری گٹھڑیاں نہیں اٹھانی پڑیں گی، اور نہ ہی کسی لمبی چھڑی سے مار کھانی پڑے گی۔

ہارون نے ہمیشہ گدھے کی دیکھ بھال کی پوری کوشش کی، اور باوجود اس کے کہ وہ گدھا بہت ہی بوڑھا تھا  مگر وہ جلد ہی طاقتور اور صحت مند ہو گیا۔ وہ چھوٹا سا لڑکا بہت خوش تھا کیوں کہ وہ یہ دیکھ سکتا تھا کہ گدھا اپنے نئے گھر میں کتنا خوش تھا ۔اور اب ہارون کو کبھی بھی اس کی وہ انتہائی غمزدہ  آواز یں نہیں سننا پڑیں گی۔  کبھی ںہیں

Best Deep Quotes in Urdu

0
Best Deep Quotes in Urdu

Best Deep Quotes in Urdu

Best Deep Quotes in Urdu

چیونٹی اور ہاتھی

0
چیونٹی اور ہاتھی

مہابس دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ ایک ٹیم کمبل کے نیچے اپنا ہاتھوں کو رکھتی ہے ٹیم کے ساتھیوں کی ہتھیلیوں میں ایک انگوٹھی کو چھپاتی ہے۔ پھر وہ دوسری ٹیم کو اپنی بند مٹھی دکھاتے ہیں۔ دوسری ٹیم کو اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ انگوٹھی کس ہاتھ میں چھپی ہوئی ہے۔

ایک چیونٹی اور ایک ہاتھی بہت اچھے دوست تھے اور جب بھی موقع ملتا دونوں ساتھ مل کر کھیلتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ، ہاتھی کے والدبہت سخت قسم کے تھے اور انہیں ہوم ورک کرنے یا اس کی والدہ کو چھوٹے چھوٹے کام میں مدد کی ضرورت ہونے کے وقت اپنے بیٹے کا کھیلنا پسند نہیں تھا۔

۔ اور انہیں پسند نہیں تھا کہ ان کا بیٹا اپنے دوست چیونٹی کے ساتھ کھیلے جب کہ اسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ کھیلنے پر ناز ہونا چاہئے۔

چھوٹا ہاتھی اپنے والد سے کافی ڈرا ہوا تھا اور ان کا غصہ ہونا اسے بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ لیکن چیونٹی بہت بہادر چیونٹی تھی اور تندمزاج بزرگ والد سے خوفزدہ نہیں تھی۔

ایک دن، دونوں دوست مہابس کا کھیل رہے تھے کہ تبھی انہیں غصہ میں بھرے ہوئے والد کے آنے کی آہٹ سنائی دی۔ زمین دھمک سے ہل رہی تھی اور وہ درختوں کو توڑتا پھوڑتا آرہا تھا۔

‘ارے نہیں، یہ میرے والد ہیں!’ نوجوان ہاتھی چلایا، اس کے چہرے پر خوف چھا گيا۔ ‘میں کیا کرسکتا ہوں؟

چھوٹی چیوٹی نے اپنی چھاتی پھلائی اور اپنے پورے قد سے کھڑی ہوگئی۔ ‘فکر نہ کرو، میرے دوست، تم میرے

پیچھے چھپ سکتے ہو اور تمہارے والد تمہیں تلاش نہیں کرسکیں گے

Sister Quotes in Urdu

0
Sister Quotes in Urdu

Top 30+Sister Quotes in Urdu

Sister is somebody, you can constantly freely talk, You can share your deepest feelings with her. The bond in between them is just impressive · Siblings, be it more youthful or older, always bring joy in our lives and we constantly like them.
We (Urdu Quotation) enjoy that we brings you the best Quotes regarding siblings. We hope you enjoy this blog post. Kindly share these sister prices estimate in urdu on your social media sites.

All Islamic Months Name

0

The Islamic calendar, also known as the Hijri calendar, consists of twelve lunar months, each with unique significance and characteristics. The months are:

1: Muharram 

 (forbidden) – A sacred month where fighting is prohibited, including the observance of ‘Āshūrā’.

2: Safar

(void) – Named for the emptiness of pre-Islamic Arab homes during this time.

3:Rabī‘ al-awwal

(the first spring) – Celebrated for the birth of Prophet Muhammad.

4:Rabī‘ ath-thānī

(the second spring) – Continues the theme of spring.

5: Jumādá al-ūlá

(the first of parched land) – Associated with dry conditions.

 

6: Jumādá al-ākhirah

(the last of parched land) – Completes the dry season.

7: Rajab

(respect) – Another sacred month where fighting is also forbidden.

8: Sha‘bān

 (scattered) – Marks the time when tribes would disperse to find water.

9: Ramaḍān

(burning heat) – The holy month of fasting from dawn to sunset, emphasizing spiritual reflection and charity.

10: Shawwāl

(raised) – Begins with Eid al-Fitr, celebrating the end of Ramadan.

11: Dhū al-Qa‘dah

(the one of sitting) – A month where warfare is traditionally suspended.

12: Dhū al-Ḥijjah

 (the one of pilgrimage) – The month of Hajj, where millions gather in Mecca for pilgrimage rituals.

Sad Quotes

0
Sad Quotes

Sad Quotes

حضرت عیسیٰ ؑ اور لالچی شاگرد کا واقعہ

0
حضرت عیسیٰ ؑ اور لالچی شاگرد کا واقعہ

حضرت عیسیٰ ؑ اور لالچی شاگرد کا واقعہ

ایک دفعہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے شاگرد کے ساتھ ایک سفر پر جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ آرام کی غرض سے رکے اور شاگرد سے پوچھا تمہاری جیب میں کچھ ہے۔ شاگرد نے جواب دیا “جی میرے پاس دو درہم ہیں”۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر شاگرد کو دیا اور فرمایا یہ تین درہم ہو جائیں گے۔ قریب ہی آبادی ہے تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لے آؤ۔

شاگرد چلا گیا اور راستے میں واپس آتے ہوئے سوچنے لگا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے۔ جبکہ روٹیاں تین ہیں۔ ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسی علیہ السلام کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی۔ لہذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھا لوں۔

چنانچہ اس نے راستے میں ہی ایک روٹی کھا لی اور باقی دو روٹیاں لے کر حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ حضرت عیسی علیہ السلام اور شاگرد نے جب کھانا کھالیا۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے شاگرد سے پوچھا کہ تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھی۔

شاگرد نے جواب دیا اے اللہ کے نبی دو روٹیاں ملی تھی۔ ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی۔ حضرت عیسی علیہ السلام خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر بعد وہاں سے روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک دریا آیا شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا اے اللہ کے نبی ہم دریا ابور کیسے کریں گے۔

جبکہ یہاں تو کوئی کشتی بھی نظر نہیں آ رہی۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا گھبراؤ مت میں آگے چلوں گا تو میرا دامن پکڑ کر پیچھے چلتے آنا۔ خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کر لیں گے۔ چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا۔

اللہ کے حکم سے آپ نے دریا اس طرح سے عبور کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے۔ شاگرد نے دیکھ کر کہا میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان ہوں۔ آپ جیسا صاحبہ اعجاز نبی پہلے کبھی معبوث ہی نہیں ہوا۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا یہ معجزہ دیکھ کر تیرے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا۔ شاگرد نے جواب دیا جی ہاں! میرا دل نور سے بھر گیا ہے۔ پھر حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا اگر تمہارا دل نورانی ہو چکا ہے۔ تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھی؟

شاگرد نے جواب دیا اے اللہ کے نبی روٹیاں صرف دو ہی تھی۔ پھر حضرت عیسی وہاں سے آگے چل دیے راستے میں ہرنوں کا ایک گول گزر رہا تھا۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک ہرن کو اشارہ کیا۔ تو وہ آپ کے پاس چلا آیا۔ آپ نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا۔

جب دونوں گوشت کھا چکے۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا کہ اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا۔ ہرن زندہ ہو گیا اور واپس دوسرے ہرنوں سے جا ملا۔ شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہوگیا اور کہنے لگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور استاد عطا فرمایا۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا۔ شاگرد نے کہا اے اللہ کے نبی میرا ایمان پہلے سے دگنا ہو چکا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا پھر بتاؤ روٹیاں کتنی تھی۔ شاگرد نے پھر وہی جواب دیا اے اللہ کے نبی روٹیاں بس دو ہی تھی۔

عیسی علیہ السلام پھر آگے کی جانب چل پڑے۔ ایک جگہ پر قیام کیا۔ تو دیکھتے ہیں کہ ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس آدمی کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی تھی۔

یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا تیسری روٹی میں نے کھائی تھی۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور جاتے ہوئے فرمایا تینوں اینٹیں تم لے جاؤ اور یہ کہہ کر عیسی علیہ السلام وہاں سے روانہ ہو گئے۔

اب لالچی شاگرد اینٹوں کے پاس بیٹھ کر یہ سوچنے لگا۔ انہیں کیسے گھر لے جایا جائے۔ اسی دوران کچھ ڈاکوؤں کا وہاں سے گزر ہوا۔ انہوں نے جب دیکھا کہ ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں۔ تو انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں۔ لہذا ہر ایک شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آئے گی۔

اتفاق سے وہ تینوں ڈاکو بھی بھوکے تھے۔ انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دے کر کہا کہ شہر قریب ہی ہے۔ تم وہاں سے روٹیاں لے کر آؤ اور کھانا کھانے کے بعد ہم اپنا اپنا حصہ تقسیم کر لیں گے۔

چنانچہ وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا۔ اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں۔ تو باقی دونوں ساتھی مر جائیں گے اور میں تینوں اینٹوں کا اکیلا مالک بن جاؤں گا۔

جبکہ دوسری طرف اس کے دونوں ساتھیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے ساتھی کو قتل کر دیں۔ تو ہمارے حصے میں ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی۔ جب ان کا تیسرا ساتھی زہر آلود روٹیاں لے کر آیا۔ تو انہوں نے منصوبے کے مطابق اس پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دیا۔

قتل کرنے کے بعد انہوں نے خوشی میں سوچا کہ اب کھانا کھا لیں۔ ہمیں کھانا بھی زیادہ مل گیا اور سونا بھی۔ پھر جب انہوں نے روٹیاں کھائیں۔ تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے وہی مر گئے۔

پھر جب واپسی پر حضرت عیسی علیہ السلام اسی راستے سے گزرے۔ تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں۔ جبکہ پاس چار لاشیں پڑی   ہیں۔ آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھری اور پھر فرمایا دنیا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے۔

ایک اچھا دوست

0
ایک اچھا دوست

ایک اچھا دوست

یاسین بہت جاوان جب وہ عراق سے انگلینڈ میں منتقل ہوگیا۔

اسین اپنے گھر سامارا چہور کر نہیں جانا چاتی تھی لیکن سامارا اب بہت حترناک تھا۔
اس کا ابو نے کہا کے انگلینڈ ایک کثیر ثقافتی جزیرہ ہے جہاں سارے نسل اور مزہب کے لوگ ایک دوسرے کے سات خوشگوار کام کرتے ہیں۔

یاسین کا خاندان اپنے سامان لے کر لنڈن گئ.وہاں بہت اوچے عمارت اور عجائب گھر تھے اور یاسین کا پسندیدہ چیزیں سیارہوم اور دریا ٹیمز پورانا پل کے سات تھا۔
یاسین کجھ وقت کے بعد اپنی پروسی کے سات دوستی ہوئ،اس کا نام تھا غینڈرو۔

پوری گرمیوں کی تعطیلات وہ دونوں پارک گئ ، چڑیا گھر گئ ، غینڈرو نے یاسین کے سات اپنے کھلونے کھیلنے دیا اور اپنے پسندیدہ سپر ہیرو کے بارے میں بتایا اور دونوں نے یاسین کی باغ میں کیمپ بنایا۔

دن پر دن یاسین لنڈن کو گھر سمج لگا اور اس کا انگلیش بہتر ہونے لگا مگر وہ ابھی بولنے میں کمی تھی اور اسی لیۓ شرمندا مہسوس ہوا۔

جب ستمبر اگئ یاسین کو اسکول جانا زاروری تھا اس لیۓ وہ اداس ہوئ لیکن اس کا ابو نے بتایا تعلیم بہت زاروری ہے ۔

بعد میں یاسین کو پتا چل گئ کے وہ عینڈرو کا کلاش میں ہوں گی۔

اگلا دن عینڈرو اور یاسین ایک دوسرے کے سات اسکول گئ اور عینڈرو نے کھیل کا میدان، استاد ، مزاخیا لرکوں اور خوبسورات لرکیوں اور قارئین کے بارے میں بتایا۔ یاسین کبھی قارئین کو نہیں دیکھا لیکن عینڈرو بہت دلچسپی تھی تو وہ زارور اچھا ہوں گا۔

مگر جب وہ کلاسروم پہنچا استانی نے یاسین کو بتایا کے وہ سب کے سامنے اپنے نام بتادوں۔

ایک لرکا نے بولا ‘ بدبودار بے ملکی’ اور سب ہسنے لگۓ اور ایک اور لرکا نے کہا ‘استانی میں سمج نہیں کر سکتی۔وہ انگریز نہیں بول سکتا’ اور سب پھر ہسنے لگۓ۔

یاسین بہت اکیلا اور اوداس مہسوس کر رہا تھا اور استانی اس کو بیٹھنے کی اجازت دیا۔ یاسین عنڈرو کے بیٹھنے کی خوایش تھی مگر وہ ایک لرکی کے سات بیٹھنا پرا۔

وہ لرکی بار بار اجیب سے یاسین کو دیکھا اور وہ الگ کرسی بیٹھنے کے لیۓ استانی کو بولایا-

جب گھنٹی بجگئ سب اپنے کوٹ پین کر کھیلنے کے میدان میں گئ مگر استانی یاسین کو بولایا تاکی وہ اس کو ایک بیج دے سکتے جس کے اوپر یاسین کا نام لیکھا تھا۔

‘اب سب آپ کا نام فورن سیکھ لیں گۓ’ استانی نے کھا۔

یاسین نے اپنے دیماغ مین سوچھا ‘ اب سب مجہ پر اور ہسیں گی’

جب وہ باہر گیا ایک چہوٹا لرکا گھوبگھرالی سنہری بال کے سات یاسین کو لرکی کا نام کہا اور یاسین اس کو سمجانے کا موفا نہیں دیا اور سب پھر ہسرہے تھے۔

یاسین گہر جانا چاتا تھا۔

‘سلام یاسین!’

یاسین پیچھے دیکھ کر عنڈرو کو دیکھا-
عندرو نے دوسرے بچے دیکھ کر کہا

‘آپ سب سے کیا ہوا؟! مین نے اپنے دوست یاسین کو بتایا کے اسکول بہت اچھا ہے- آپ اس کا پہلا دن بوڑا کیو بنا رہے ہیں؟’

‘وہ ہم سے الگ ہے’ ایک لمبی لرکی نے بولا

‘تو؟ آپ بھی الگ ہے۔ آپ پورا اسکول میں سب سب سے لمبی ہےاور جب لوگ آپ کے بارے میں مزاک بناتے ہیں آپ اداس ہوجاتی ہے’

‘اور آپ’ عینڈرو گھوبگھرالی بال لرکا کو دیکھ رہا تھا ‘آپ اداس ہوتے ہے جب لوگ آپ کا بال لرکی کا بال بولتے ہیں’

‘ ہم سب الگ ہیں اور اگر ہم سب ایک دوسرۓ کے ترہا ہوتے ہیں تو زنداگی کیسی ہون گی؟’

سارے بچے خاموش ہو گئ پھر یاسین اپنا سر اوچا رکھ کر مسکرایا اور کہا ‘بوڑینگ’

‘بالکل!’ بہت بوڑینگ’ عنڈرو بھی مسکرایا۔

پھر سارے بچے ایک دوسرے کے سات کہا ‘ بہت بوڑینگ!’

عنںدرو نے کہا کے یاسین سئ ترہا الگ ہے کیونکہ وہ ہاٹ ڈاگز کو پسند نہیں کرتا۔

سب ہسنے لگا اور سب کو بتایاوہ چیز جو ان الگ بناتے ہیں۔

پیٹڑ جینکینز نے اس کا کمیز اٹھا کر سب اس کا جنام کا نشانی فخر کے سات دیکھایا۔

جب کھیلنے کا وقت ختم ہوا عنڈرو نے ہات اٹھا کر استانی کو پوچا ‘کیا ہم اس لوگوں کے بارے میں بات کرسکتے ہیں جو دوسرے ملک سے انگلینڈ آگئ ایک نیا زندگی شرؤ کرنے کے لیۓ ، میرا دوست یاسین کی ترھا؟’

استانی نے کہا انفرادیت زاروری ہے مگر بریتانیءہ کی خوبسوراتی یۓ ہے کی وہ ایک کثیر ثقافتی جزیرہ ہے۔

یاسن نے کتاب مین دو لفظ لیکھا اور اپنے آپ سے واداہ کیا کی وہ اس لفظ کو سیک لوں گی اور ہمیشا یاد کروں گی۔

وہ ‘دوست’ بھی اپنۓ کتاب مین لیکھا کینکہ وہ بہت شکر گزار تھا کے اس نے ایک سچا دوست ملا جو اس کو کبول کرتا ہے۔

فرشتوں کی دنیا

0
فرشتوں کی دنیا

فرشتے اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق ہیں۔ جنہیں ان کی اصلی شکل و صورت میں دیکھنا انبیاء کرام علیہ الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی اور کے لیے ممکن نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے اردگرد لاتعداد فرشتے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ مگر ہمیں وہ دکھائی نہیں دیتے۔ اگر وہ انسانی شکل اختیار کر کے ہمارے سامنے آئیں۔ تو پھر انہیں دیکھنا ممکن ہے۔ انسان کی نسبت فرشتے عظیم مخلوق ہیں۔ اور ان میں بھی چھوٹے ہیں اور بعض بڑے ہیں۔

فرشتوں کے پر

فرشتوں میں بعض کے دو دو پر ہیں۔ اور بعض کے چھ چھ سو پر ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد پاک ہے کہ اللہ تعالی ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ جو آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کا اپنا قاصد (پیغمبر) بنانے والا ہے۔

بعض روایات کے مطابق جبرائیل امین علیہ السلام کے چھ سو پر دیکھے گئے ہیں۔ اور ہر پر نے آسمان کو گھیر رکھا تھا۔ ان کے پروں سے مختلف رنگ اور قیمتی موتی بکھر رہے تھے۔

فرشتوں کی قد و قامت

وہ فرشتے جنہوں نے عرش اٹھا رکھا ہے۔ ان کے قد و قامت کے بارے میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا عرش کو اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے بارے میں مجھے یہ بتانے کی اجازت دی گئی ہے۔

جس کے پاؤںسب سے نچلی ساتویں زمین میں ہیں اور اس کے کندھوں پر عرش ہے۔ اس کے دونوں کانوں اور کندھوں کے درمیان اتنی دوری ہے کہ اسے طے کرنے کے لیے پرندے کو سات سو سال کی پرواز چاہیے۔ وہ فرشتہ کہتا ہے یا اللہ تو پاک ہے جہاں بھی ہے اور جہاں بھی ہو۔

فرشتوں کی ضروریات

اللہ تعالی نے فرشتوں میں شادی بیاہ کی حاجت نہیں رکھی۔ اس طرح انہیں کھانے پینے سے بھی بے نیاز کر دیا ہے۔ اس کی وضاحت قرآن مجید میں مذکور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعے سے ہوتی ہے۔ جس میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے۔ تو آپ علیہ السلام ان کے لیے فورا گوشت لے کر آئے۔ مگر انہوں نے اسے تناول نہیں کیا۔

اللہ تعالی نے فرشتوں کو بیماری، سستی، کاہلی، دکھ، تکلیف، تھکاوٹ اور اکتاہٹ وغیرہ سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ دن رات فقط اللہ کی اطاعت میں اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔

قرآن مجید میں بیان ہوا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے۔ اسی اللہ کا ہے اور جتنے اس کے پاس فرشتے ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ وہ دن رات اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔

فرشتے تقریبا عام طور پر آسمانوں میں رہتے ہیں۔ جو صرف اللہ کے حکم سے مختلف کاموں کے لیے زمین پر اترتے ہیں اور پھر واپس آسمان پر چلے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر خود فرشتوں کی یہ بات مذکور ہے۔ “ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے”۔

فرشتوں کی تعداد

فرشتوں کی تعداد کتنی ہے اس کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بلکہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں اور جنوں سے بھی ان کی تعداد زیادہ ہے۔

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آسمانوں میں کہیں چار انگلیاں جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز جہنم کو اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی ستر لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے۔ جو اسے کھینچ کر لا رہے ہوں گے۔

فرشتوں کی ایک اہم خاصیت

فرشتوں کی ایک اہم خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حکم سے اپنی شکل و صورت کے علاوہ کوئی اور صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ صورت کسی ایسے انسان کی بھی ہو سکتی ہے۔ جسے دیکھنے والے پہچان لیں۔

انسانوں کے علاوہ کسی اور جاندار کی صورت اختیار کرنے کی فرشتوں کو طاقت ہے یا نہیں۔ اس کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی صراحت یا ذکر نہیں ملتا۔ البتہ ان کی انسانی شکل اختیار کرنے کے واقعات ضرور ملتے ہیں۔ جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فرشتے اللہ تعالی کے حکم سے دیگر شکلیں بھی اختیار کر سکتے ہیں۔

سیدہ مریم علیہ السلام کے پاس جبرائیل امین علیہ السلام انسانی شکل میں تشریف لائے تھے۔ اور جبریل امین علیہ السلام سوائے دو مرتبہ کے ہر مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس انسانی شکل میں تشریف لائے۔

GOOD NIGHT QUOTES IN URDU

0
GOOD NIGHT QUOTES IN URDU

BEST 10+GOOD NIGHT QUOTES IN URDU

A rare collection of poetry called Good Night is being read at your service. On good night, a lot of people enjoy reading poetry to their significant other. According to a common belief, those who fall asleep will never understand what is wrong with those who wake up. For the sake of their beloved, many individuals wake up in the middle of the night when they are unable to go asleep. At night, a lot of individuals awaken and search for their beloved among the stars. If their loved one claims they can’t go asleep without it, many people claim they will stay awake their entire lives. The first collection of Good Night Poetry in Urdu is provided for your enjoyment, and we hope you would spread the word about it to cheer us up. The first collection of Good Night Poetry Shayari in Urdu is shown in the images below. Please look at this.